عورت مارچ تو ہو گا ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

کون سی قیامت آ گئی اگر عورتوں Ù†Û’ اپنے Ø+قوق Ú©ÛŒ جنگ Ú©Ùˆ ذرا آگے بڑھانے Ú©Û’ لیے گزشتہ سال ملک Ú©Û’ ہر بڑے شہر میں جلوس نکال ڈالے‘ ہزاروں Ú©ÛŒ تعداد میں عورتیں سڑکوں پہ نکلیں‘ رنگا رنگ پوسٹر بنائے‘ اپنے Ø+قوق Ú©Û’ Ø+والے سے پُر جوش اور پُر عزم نعرے لگائے‘ مطالبات کا انبار قوم Ú©Û’ Ø+کمرانوں Ú©Û’ سامنے رکھا‘ اور شام تک گھروں Ú©Ùˆ لوٹ گئیں۔ مارچ Ú©ÛŒ بازگشت کئی ہفتوں تک سماجی اور سیاسی ماØ+ول میں ارتعاش پیدا کرتی رہی۔ عورتوں Ú©ÛŒ Ù†Ø+یف اور کمزور آواز Ú©ÛŒ نسبت قدامت پسندوں کا رد عمل شدید‘ جذباتی اور کئی Ù„Ø+اظ سے غیر منطقی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا‘ مذہبی‘ روایتی اور جاگیردارانہ سماج Ú©Û’ مفادات سے وابستہ سب ثقافتی اور سیاسی طاقتیں یکجا ہو گئی ہیں۔ عورت مارچ Ú©Û’ چند پوسٹرز اور خصوصی طور پر ایک نعرے ''میرا جسم میری مرضی‘‘ Ù†Û’ رد عمل کا ایسا طوفان پیدا کر دیا کہ ایک سال گزرنے Ú©Û’ بعد بھی تھما نہیں۔ رواں سال مارچ کا اعلان ہوتے ہی پدرسری Ú©ÛŒ Ù…Ø+افظ سماجی اور مذہبی طاقتیں پھر Ø+رکت میں آ Ú†Ú©ÛŒ ہیں۔
Ú©Ú†Ú¾ نعروں اور پوسٹرز پہ Ù„Ú©Ú¾ÛŒ گئی تØ+ریروں اور خاکوں پر اعتراض ہو سکتا ہے اور کوئی اعتراض کرے بھی تو وہ اظہارِ رائے Ú©ÛŒ آزادی Ú©Û’ زمرے میں آئے گا‘ عین اسی طرØ+ جیسے ہماری خواتین‘ مارچ‘ اس Ú©Û’ نعروں اور منشور کا دفاع اور جواز آزادیٔ رائے Ú©Û’ بنیادی جمہوری Ø+Ù‚ سے نکالتی ہیں۔ مگر یہ معاملہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے۔ عورت مارچ اور اس Ú©Û’ مخالفین Ú©Û’ درمیان ایک نظریاتی خلیج Ø+ائل ہے‘ جس Ú©Ùˆ پاٹنا کسی Ú©Û’ بس Ú©ÛŒ بات نہیں۔ سوچ اور نظریے کا یہ فرق Ù…Ø+ض پاکستان یا کسی مسلم معاشرے Ú©Û’ لیے ہرگز مخصوص نہیں‘ یہ بھارت‘ امریکہ‘ تمام مغربی ممالک اور باقی سب جگہ‘ جہاں عورتوں Ú©Ùˆ آزادیاں نصیب ہوئی ہیں‘ ایک سماجی اور سیاسی تصادم Ú©ÛŒ صورت میں موجود ہے۔ ہم میں سے Ú©Ú†Ú¾ Ø+ضرات‘ دانشور‘ سیاسی زعما اور بڑی Ø+د تک قابل اØ+ترام مذہبی علما عورتوں Ú©ÛŒ عصری آزادی Ú©ÛŒ تØ+ریک Ú©Ùˆ مذہب Ú©Û’ رنگ میں دیکھتے ہیں۔ صورتِ اØ+وال امریکی اور مغربی معاشروں میں بھی Ú©Ú†Ú¾ مختلف نہیں۔ وہاں مذہبی گروہوں Ù†Û’ عورتوں Ú©Û’ سماجی Ø+قوق اور شخصی آزادی Ú©Û’ خلاف مخصوص Ø+لقوں Ú©Ùˆ متØ+رک کر رکھا ہے۔
عورتوں Ú©Û’ Ø+قوق Ú©ÛŒ سیاسی جدوجہد Ú©ÛŒ طویل تاریخ ہے۔ یہ تقریباً ڈیڑھ صدی پہ Ù…Ø+یط ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں گزشتہ صدی Ú©ÛŒ دوسری اور کہیں تیسری دہائی میں جا کر عورتوں Ú©Ùˆ ووٹ دینے کا Ø+Ù‚ ملا تھا۔ ہمارے معاشرے Ú©ÛŒ طرØ+ مغرب Ú©Û’ صنعتی معاشرے میں بھی مرد Ú©Û’ قائم کردہ سماجی اور سیاسی نظام میں برابری Ú©Û’ درجے کا مطالبہ کرنا آسان نہ تھا۔ سب معاشروں میں وہی جاگیردارانہ سماج کا بیانیہ غالب تھا کہ مرد اور عورتیں بھلا کیسے برابر ہو سکتی ہیں؟ عورتوں Ú©ÛŒ جگہ گھر میں ہے‘ باہر Ú©ÛŒ دنیا میں سیاست‘ Ø+کمرانی‘ معیشت اور روزی کمانا مرد Ú©ÛŒ ذمہ داری ہے۔ یہ صرف ہمارے اور دیگر مشرقی مذاہب کا نقطہ نظر نہیں کہ مرد عورت کا Ù…Ø+افظ ہے‘ یہ تو صدیوں تک مغرب کا بھی مقالہ رہا ہے۔
مغرب میں سیاسی‘ قانونی اور آئینی برابری تو عورت Ú©Ùˆ ملی‘ مگر تنخواہ‘ ترقی اور مراتب میں نا ہمواری اور عدم مساوات ابھی تک قائم ہے۔ تعلیم اور ایسے دیگر شعبوں میں جہاں مردوں Ú©ÛŒ اجارہ داری تھی‘ عورتیں اپنے Ø+قوق Ø+اصل کرنے میں کئی قدم آگے بڑھی ہیں‘ مگر ابھی تک ''شیشے Ú©ÛŒ چھت‘‘ بلند پروازی Ú©ÛŒ راہ میں Ø+ائل ہے۔ اوپر دیکھ تو سکتی ہیں‘ مگر اڑان ایک Ø+د تک ہی ہے۔ عورت Ú©ÛŒ شخصی آزادی Ú©ÛŒ تØ+ریک کا تعلق مغرب میں کئی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے ہے۔ ویت نام پر مسلط Ú©ÛŒ گئی جنگ Ú©Û’ خلاف امریکہ Ú©Û’ نوجوانوں Ù†Û’ بغاوت Ú©ÛŒ اور صنعتی معاشرے میں ''ترقی‘‘ Ú©Û’ فلسفے سے بھی۔ اس عمل میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ بات آگے بڑھ گئی۔ شادی‘ خاندان‘ بچے کتنے ہوں گے‘ یا نہیں ہوں گے‘ من پسند لباس اور یہ کہ اکیلا رہنا ہے یا کس Ú©Û’ ساتھ رہنا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر قطع Ø+مل کا Ø+ق‘ ایسے معاملات تھے‘ جن سے مردوں پہ مرکوز مغربی سماجی نظام شدید جھٹکے Ù…Ø+سوس کرنے لگا تھا۔ مرد عورت Ú©ÛŒ آزادی سے خائف مذہب‘ روایات اور خاندان Ú©ÛŒ بقا Ú©Û’ فلسفوں کا سہارا لینے Ù„Ú¯Û’Û”
پاکستان میں عورتوں Ú©Û’ Ø+قوق Ú©Û’ جواز اور ان Ú©Û’ خلاف دلائل اور خدشات‘ دونوں مغرب میں کئی دہائیوں سے جاری سماجی تصادم کا عکس ہیں۔ صرف ہماری Ù…Ø+دود پاکستانی دنیا نہیں بلکہ تمام عالم جس ترقی Ú©ÛŒ زد میں ہے‘ اس تصادم سے نہ تو بچا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی آسان سیاسی Ø+Ù„ کسی Ú©Û’ پاس موجود ہے۔ عورتوں Ú©Ùˆ برابری Ú©Û’ Ø+قوق کہیں بھی اور خصوصاً قدامت پسند مذہبی سماجوں میں میسر نہیں۔ ہمارا قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرہ مردانہ نوعیت کا ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں عورتوں Ú©ÛŒ جگہ اب بھی گھر Ú©ÛŒ چاردیواری‘ Ø+فاظت‘ سلامتی اور عزت پدرسری کا بیانیہ ہے۔ عورتوں Ú©Û’ Ø+قوق کا مسئلہ وطنِ عزیز میں بہت گمبھیر ہے۔ عورتوں Ù†Û’ آواز بلند کرنا شروع Ú©ÛŒ ہے؛ اگرچہ شہروں میں اور بہت Ù…Ø+دود پیمانے پر‘ تو ان Ú©ÛŒ Ù…Ø+رومیوں‘ ذلتوں‘ نا انصافیوں اور Ø+قوق Ú©ÛŒ پامالی Ú©Ùˆ یہ کہہ کر نہیں ٹال سکتے کہ اسلام Ù†Û’ عورت Ú©Ùˆ سب Ø+قوق دے دئیے ہیں۔ کسی Ù†Û’ کیا خوب کہا ہے کہ مسئلہ اسلام کا نہیں‘ مسلمان کا ہے کہ کیا وہ ان Ø+قوق Ú©ÛŒ پاسداری کرنے Ú©Û’ لئے تیار ہے‘ جو اسلام Ù†Û’ تفویض کر رکھے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو زندگی کا ہر معاملہ اور مسئلہ اسلام Ú©Û’ Ø+والے سے Ø·Û’ کرتے ہیں؟
ہر معاشرے میں عورتوں Ú©Ùˆ اØ+تجاج کا Ø+Ù‚ Ø+اصل ہے۔ یہ ان کا آئینی Ø+Ù‚ بھی ہے۔ بجائے اس Ú©Û’ کہ ہم ان Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں آواز بلند کریں‘ ان Ú©Û’ ساتھ روزانہ Ú©ÛŒ بنیاد پر ہونے والی نا انصافیوں Ú©Û’ خلاف Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوں‘ الٹا فØ+اشی‘ عریانی اور بے Ø+یائی Ú©Û’ لیبل ان عورتوں Ú©Û’ ماتھے پر چسپاں کرنے لگتے ہیں۔ Ø+Ù‚ بات تو یہ ہے کہ ہزاروں Ú©ÛŒ تعداد میں خواتین ہر سال خاندانی عزت Ú©Û’ نام پہ بے دردی سے قتل کر دی جاتی ہیں۔ اپنے بچپن سے Ù„Û’ کر آج تک اپنے علاقے میں عورتوں کا ظالمانہ طریقے سے قتل ہونا دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں جب Ú©Ú†Ú¾ واقعات جو والدہ Ù…Ø+ترمہ مرØ+ومہ Ú©ÛŒ زبانی معلوم ہوئے‘ اور یاد آ جاتے ہیں۔ بیسیوں ایسے قتل ہیں کہ خاندان Ú©Û’ لوگوں Ù†Û’ لاشیں دریا میں ڈال دیں۔ پولیس Ú©Ùˆ اگر معلوم ہو گیا تو سکے پھینک کر مقدمہ تک درج نہ ہونے دیا گیا۔
کس زمانے میں آپ رہتے ہیں اور کس فلسفے کا آپ سہارا لیتے ہیں کہ بچیوں Ú©ÛŒ شادیاں کمسنی میں کر دی جائیں‘ انہیں زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے‘ وہ شعور اور آگہی Ú©ÛŒ دولت سے Ù…Ø+روم رہیں اور مالی معاملات میں مرد Ú©Û’ زیر تسلط رہیں۔ عورتوں Ú©ÛŒ کفالت Ú©ÛŒ ذمہ داری بھی کیا خوب دھوکا ہے کہ وہ ہر وقت Ú©Ú†Ú¾ لینے Ú©Û’ لئے ترستی رہیں اور مرد Ø+ضرات Ú©ÛŒ دست نگر رہیں۔ اس سے بڑا عقل کا دیوالیہ پن کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ماہر خاتون معالج Ú©Ùˆ یہ کہہ کر گھر میں بٹھا دیا جائے کہ خاندان Ú©Ùˆ رقم Ú©ÛŒ ضرورت نہیں۔ ہزاروں معالجوں Ú©Ùˆ ہم Ù†Û’ گھروں میں Ù…Ø+دود کر رکھا ہے کہ خاوند یا اس کا باپ اصرار کرتا ہے کہ باہر کام کرنے Ú©ÛŒ ضرورت نہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تجربہ کرکے دیکھیں کہ عورت باہر کام کرے اور مرد Ú©Ùˆ گھر Ú©ÛŒ ذمہ داریوں میں مصروف رکھا جائے اور باہر Ù†Ú©Ù„Û’ تو چادر اوڑھ کر یا برقعہ پہن کر۔ وہی گھسی پٹی باتیں کہ عورت اور مرد Ú©Ùˆ مختلف بنایا گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں مگر وہ یکساں انسان ہیں‘ ان میں ایک جیسی روØ+ ہے‘ ان Ú©ÛŒ آنکھیں ایک جیسے خواب دیکھتی ہیں۔
یہاں تØ+ریک انصاف کا انتخابی نعرہ جاذب Ù…Ø+سوس ہوتا ہے‘ روکنا ہے تو روک لو‘ عورت مارچ ہو کر رہے گا۔ نعرے بھی لگیں گے‘ پوسٹر اب زیادہ نمایاں اور رنگین ہوں گے‘ وہ Ú©Ù¾Ú‘Û’ بھی زرق برق زیب تن کریں گی۔ Ú©Ú†Ú¾ کا تو وہ منہ بھی چڑائیں گی۔ نہ معلوم مرد Ø+ضرات گھبرا کیوں گئے ہیں؟ کیوں سمجھتے ہیں کہ عورتیں جلوس Ú©ÛŒ صورت میں خود مختاری کا منشور اور عَلم Ù„Û’ کر نکلیں تو روایات‘ خاندان Ú©ÛŒ اکائی اور عزت‘ سب خاک میں مل جائیں Ú¯Û’Û” Ù¹Ú¾Ù†ÚˆÛ’ ہوں‘ آرام اور سکون سے رہیں‘ Ú©Ú†Ú¾ نہ بھی کریں‘ مظلوموں Ú©ÛŒ آواز تو سن لیں۔